وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا
اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا (٦٧) کہ تم لوگ اب اس سرزمین پر رہو، پس جب آخرت کا وقت آجائے گا تو ہم تم سب کو اکٹھا لائیں گے۔
اور بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی حکم دیا کہ وہ شام و فلسطین کی سرزمین میں اقامت پذیر ہوجائیں اور مرور زمانہ کے سامنے ایک وقت ایسا آیا جب بنی اسرائیل کے لوگ فرعون کی سرزمین اس کے مال و دولت اور زمین وجائیداد کے مالک بن گئے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، نبی کریم (ﷺ) کو فتح مکہ کی بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی اسرائیل کو بالآخر سرزمین مصر کا مالک بنا دیا، اسی طرح اگرچہ آج آپ مکہ میں کمزور ہیں اور یہاں سے آپ کو نکل جانا پڑے گا، لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپ یہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو مکہ سے کافروں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر نکل جانا پڑا، لیکن چند ہی سال بعد آپ وہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اہل مکہ آپ کے قبضے میں آگئے جنہیں آپ نے اپنے حلم و کرم کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب قیامت قریب ہوگی تو اچھے اور برے تمام لوگ ایک ساتھ زندہ کیے جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا اور نیک بختوں اور بد بختوں کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔