أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
آپ زوال آفتاب کے وقت سے رات کی تاریکی تک نماز قائم (٤٧) کیجیے، اور فجر کی نماز میں قرآن پڑھیئے، بیشک فجر میں قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے۔
(47) روز قیامت اس دن کے جزا و سزا اور مشرکین عرب کی بعض سازشوں کو بیان کرنے کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے جو سب سے اہم عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ البقرہ آیت (45) میں فرمایا ہے : کہ اے مسلمانو ! تم لوگ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو، مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے مراد نماز پنجگانہ ہے جس کی ادائیگی ان کے محدود اوقات میں فرض ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ کا معنی زوال آفتاب ہے جو ظہر اور عصر کی نماز پر دلالت کرتا ہے۔ اور سے مراد رات کی تاریکی ہے جو مغرب اور عشا کے درمیان مشترک ہے۔ اور سے مراد نماز فجر ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی متواتر قولی اور فعلی سنتوں کے ذریعہ ان اوقات کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے، اور ابتدائے اسلام سے آج تک امت اس پر عمل پیرا ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نے ہر نماز کا وقت بیان کردیا اور نبی کریم (ﷺ) نے ہر نماز کی تعداد رکعات بیان فرما دی۔ ابن سیرین، ابن المنذر، اور کچھ دیگر ائمہ کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کبھار بغیر خوف و بیماری اور بغیر بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔ بخاری و مسلم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے مدینہ میں سات آٹھ دن تک ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایسا آپ نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے کیا، لیکن بہت سے راویوں نے آپ کے اس فعل کو برسات کی رات پر محمول کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ سے مراد فجر کی نماز کا وقت ہے جب رات اور دن کے فرشتے جمع ہوجاتے ہیں، بخاری شریف کی ابو ہریرہ سے مروی حدیث سے یہ ثابت ہے اور جمہور مفسرین کی یہی رائے ہے۔