أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا
جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی طرف اسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کون اس کے زیادہ قریب ہوجائے اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہیں، اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک آپ کے رب کا عذاب ایسا ہے جس سے ڈرا جاتا ہے۔
آیت (57) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام، عزیر علیہ السلام، فرشتے، جن اور دیگر صالحین، جنہیں یہ مشرکین پکارتے ہیں یہ سب تو خود اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کی جناب میں قربت چاہتے ہیں، اللہ کی رحمت کی امید لگائے رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں اس لیے کہ اس کا عذاب وہ عذاب ہے جس سے تمام ارباب عقل و خرد پناہ مانگتے ہیں تو جو خود اپنے انجام سے واقف نہیں اور جو اللہ کی رضا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کی عبادت کیسے کی جاسکتی ہے؟ میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ نیک اعمال کرے گا اور جب اس کے عذاب سے ڈرے گا تو گناہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔