وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
اور آپ کا رب ان تمام مخلوقات سے خوب واقف (٣٥) ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے وار ہم نے داؤد کو زبور دیا تھا۔
(35) آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے ان کے احوال اور ضرورتوں سے اچھی طرح واقف ہے کون نیک بخت ہے اور کون بدبخت، کون ایمان کو اختیار کرے گا اور کون کفر کو، یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل عیاں ہیں۔ اس لیے اے میرے رسول اور میرے مسلمان بندو، تم لوگ کافروں کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کرو، اور جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے اس کے لیے ملول خاطر نہ ہو، دعوت اسلامیہ کے سلسلے میں تم پر ذمہ داری ہے اسے پوری کرو، اور اسے قبول کرنے یا رد کردینے کی بات اللہ کے حوالے کردو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لیے انبیا و رسل کو مبعوث کرتا ہے اور اس ذمہ داری کے لیے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، وہی جانتا ہے کہ مقام نبوت پر سرفراز ہونے کا کون اہل ہے، اور پھر اس نے ان انبیاءکے درمیان فرق مراتب رکھا ہے، موسی کو تورات دیا اور اپنا کلیم بنایا، عیسی کو انجیل، اور داود کو زبور دیااور دیگر انبیاء پر ان کو فوقیت دی اور نبی کریم (ﷺ) کو قرآن کریم جیسی عظیم المرتبت کتاب عنایت فرمائی اور اس کی بدولت انہیں اپنے تمام نبیوں پر فضیلت بخشی۔ اور زبور کا ذکر بطور خاص اس لیے آیا ہے کہ اس میں نبی کریم (ﷺ) کی صفات بیان کی گئی ہیں اور اس سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے داؤد کو زبور دے کر انہیں اس دور کے تمام انسانوں پر فوقیت دی اسی طرح اس نے عربوں میں سے محمد (ﷺ) کو اپنے آخری نبی کے طور پر چن لیا جو اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ صاحب عقل و کمال تھے، اور جن کی صداقت و امانت کا چرچا پوری دنیائے عرب میں تھا۔