سورة الإسراء - آیت 15

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو کوئی راہ راست (٨) کو اپناتا ہے تو وہ اپنے فائدے کے لیے ایسا کرتا ہے اور جو کوئی گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے تو اس کا وبال اسی کے سر ہوتا ہے، کوئی شخص بھی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں ڈھوتا ہے، اور ہم جب تک اپنا رسول نہیں بھیج دیتے ہیں (کسی قوم کو) عذاب (٩) نہیں دیتے ہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(8) اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے ہر آدمی کو یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ جو شخص آج راہ ہدایت کو اختیار کرے گا اللہ اس کے رسول، یوم آخرت اور جنت و جہنم پر ایمان لائے گا، عمل صالح کرے گا، اور شرک و معاصی سے اجتناب کرے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا، عذاب سے نجات پائے گا اور جنت کا مستحق بنے گا، اور جو شخص گمراہ ہوگا، قرآن کریم اور نبی کریم (ﷺ) کو جھٹلائے گا اور شرک و معاصی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا نقصان اسی کو پہنچے گا، اور جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے گناہوں کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ (9) آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اپنا فضل و کرم اور ان کے ساتھ اپنا عدل و انصاف بیان فرمایا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی قوم کو اپنا رسول بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا۔ جب اپنا رسول بھیج کر حق و باطل کو ان کے لیے آشکارا کردیتا ہے اور پھر بھی ایمان نہیں لاتے تو ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیت (134) میں فرمایا ہے : کہ اگر ہم اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کردیتے تو یقینا یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہمارے پاس رسول کیوں نہ بھیجا، کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و خوار ہوتے، اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب تک اپنا رسول بھیج کر حجت تمام نہیں کردیتا نہ دنیا میں کسی قوم کو ہلاک کرتا ہے اور نہ ہی آخرت میں کسی کو عذاب دے گا۔