وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اور اللہ ایک بستی (٦٩) کی مثال پیش کرتا ہے جو پر امن اور پرسکون تھی اس کی روزی کشادگی کے ساتھ ہر جگہ سے آتی تھی، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں شدید بھوک اور خوف و ہراس کا مزہ چکھایا۔
(69) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہاں قریۃ سے مراد مکہ ہے، وہاں کے لوگ سکون کی زندگی گزارتے تھے اور ہر چہار جانب سے اللہ کی روزی وہاں پہنچتی تھی، لیکن جب انہوں نے اللہ کی ناشکری کی اور رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان لانے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں حالتیں بدل دیں اور نبی کریم (ﷺ) نے ان کے لیے بد دعا کردی کہ اے اللہ ! انہیں یوسف کے زمانے کے قحط کی مانند قحط میں مبتلا کردے۔ چنانچہ مکہ میں ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ختم ہوگئی اور مردے کا گوشت کھانے کی نوبت آگئی، اور نبی کریم (ﷺ) کے مدینہ کی طرف ہجرت کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ ان کے دل و دماغ پر لشکر اسلام کا ایسا رعب مسلط کردیا کہ ان کا امن و سکون چھن گیا، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا، اور سب کچھ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ مفسرین کہتے ہیں اگر قریۃ سے مراد مکہ ہی مان لیا جائے تب بھی اس آیت کا حکم ہر اس قوم کو شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا، اور مرور زمانہ کے ساتھ نعمت کے نشے میں ایسا مست ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے اور سرکشی ان کی سرشت بن گئی، تو اللہ نے ان پر اپنا عذاب مسلط کردیا۔