وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب ہم کسی آیت (٦٤) کے بدلے دوسری آیت لاتے ہیں اور اللہ جو کچھ نازل کرتا ہے اسے خوب جانتا ہے، تو کفار (رسول اللہ) سے کہتے ہیں کہ تم خود ہی گھڑ لیتے ہو، (ایسی بات نہیں ہے) بلکہ اکثر اہل کفر کچھ جانتے ہی نہیں نہیں۔
(64) مشرکین مکہ کا قرآن کریم سے متعلق ایک شبہ بیان کیا گیا ہے اور اس کی تردید کی گئی ہے، قرآن کریم میں بعض جگہوں میں ایسا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک آیت نازل فرمائی، پھر مخلوق کی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ دوسرے حکم نے لے لی۔ مشرکین اپنی کم عقلی اور قلت ایمانی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) جھوٹا ہے، ہر روز اپنی طرف سے ایک نئی بات پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے۔ سورۃ البقرہ آیت (106) کی تفسیر میں اس بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے۔ وہاں یہ بتایا جاچکا ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ شبہ یہود پھیلاتے تھے اور یہاں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شبہ مشرکین مکہ پھیلاتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ تمام کافروں کا یہ شیوہ تھا اور آج بھی ملحدین اور دشمنان اسلام کا یہی طریقہ ہے۔ ان سب کے اسی شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں کی مصلحت کی خاطر ایک آیت نازل فرماتا ہے، پھر اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اسے منسوخ کردیتا ہے، اور اس کی جگہ دوسرا حکم لے آتا ہے۔