سورة النحل - آیت 76

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ تعالیٰ دو آدمی کی مثال (٤٧) بیان کرتا ہے ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا، اور وہ اپنے آقا کے لیے بوجھ ہوتا ہے، جہاں کہیں بھی اسے بھیجتا ہے کوئی بھلائی لے کر نہیں آتا، کیا وہ اس آدم کے برابر ہوسکتا ہے جو انصاف کا حکم دیتا ہے، درآنحالیکہ وہ سیدھی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(47) اس دوسری مثال کے ذریعہ بھی بتوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، کہ ایک آدمی گونگا اور بہرا ہے، اپنا مافی الضمیر ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی مفید قول و عمل کی قدرت رکھتا ہے، اور اپنے رشہ داروں پر یکسر بوجھ بنا ہوا ہے، کسی بھی حیثیت سے نہ اپنے کام کا ہے اور نہ دوسروں کے کام کا، ایسا آدمی اس شخص کے برابر کیسے ہوسکتا ہے جو گفتگو کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، ہوش و خرد کا مالک ہے، لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دے کر انہیں نفع پہنچاتا ہے، اور اچھے اخلاق والا اور صاحب دین ہے، اور اپنا مقصد آسان اور سیدھے راستوں سے حاصل کرلیتا ہے؟ جس طرح یہ دونوں آدمی برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اس کے برابر وہ پتھر کے بت کیسے ہوسکتے ہیں جنہیں بت پرست ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھوتا پھرتا ہے اور وہ اس کے لیے بوجھ بنے ہوئے ہیں، نہ اسے نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان؟