وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
اور اللہ نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے (٤٣) پھر تمہاری روح کو قبض کرلیتا ہے، اور تم میں سے بعض کو گھٹیا عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے، تاکہ بہت کچھ جاننے کے بعد ایسا ہوجائے کہ اسے کچھ بھی یاد نہ رہے، بیشک اللہ بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔
(43) مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیتوں میں پانی، پودوں چوپایوں اور شہد کی مکھیوں میں پائے جانے والے عجائب و غرائب کو بیان کرنے کے بعد اس آیت میں انسان کی تخلیق سے متعلق عجائب کو بیان کیا ہے کہ وہ ابتدائے آفرینش سے آخری عمر تک چار مراحل سے گزرتا ہے، پہلا مرحلہ نشو ونما کا ہوتا ہے، دوسرا جوانی کا، تیسرا ادھیڑ عمر کا جس میں آدمی اپنی عمر اور صحت کے اعتبار سے زوال پذیر ہونے لگتا ہے۔ اور چوتھا بوڑھاپے کا، جب کمزوری اور ناتوانائی اس کا لازمہ بن جاتی ہے اور جوں جوں اس کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اس کی تمام جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوتی جاتی ہیں، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بالکل بچہ کے مانند ہوجاتا ہے اس کی عقل جاتی رہتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التین آیات (4، 5)میں فرمایا ہے : یقینا ہم نے انسان کو بہترین صفت میں پیدا کیا، پھر اسے نیچوں سے نیچا کردیا۔