وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ
اور وہ اللہ کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت (٣٦) کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے لیے برا سمجھتے ہیں اور اپنی زبانوں سے جھوٹ کہتے ہیں کہ بیشک بھلائی انہی کے لیے ہوگی، بلا شبہ انہی کے لیے جہنم کی ااگ ہے اور وہی (جنہمیوں) کے آگے آگے ہوں گے۔
(36) آیات (56، 57) میں مشرکین مکہ کے جس بدترین جرم کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں، اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں، ور اس پر اللہ تعالیٰ نے جو شدید نکیر کی ہے اسی کی مزید تاکید اور مشرکین کی زجر و توبیخ کے طور پر کہا جارہا ہے کہ وہ خود تو گوارہ نہیں کرتے کہ کوئی ان کے مال و جائیداد میں ان کا شریک بن جائے، اور اللہ کے لیے غیروں کو شریک بناتے ہیں، اور جن لڑکیوں کی نسبت اپنی طرف کرنا اپنے لیے معیوب سمجھتے ہیں، انہی کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پر اس افترا پردازی کے باوجود کہتے ہیں کہ اگر بالفرض قیامت آئے گی تو ہمارا انجام اچھا ہی ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فصلت آیت (50) میں منکرین قیامت کا قول نقل کیا ہے۔ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو یقینا مجھے اس کی جانب سے اچھا انجام ملے گا۔ اور سورۃ الکہف آیت (36) میں فرمایا ہے : یعنی میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی اور اگر مجھے اپنے رب کے پاس جانا ہی پڑا تو اس (دنیاوی باغ) سے بہتر انجام وہاں ملے گا۔ یعنی بد عملی کرتے ہیں اور اللہ سے ناممکن نتیجہ کی تمنا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس زعم باطل اور جھوٹی تمنا کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا ٹھکانا جہنم کے سوا کہیں نہیں ہوگا، اور اس میں وہ بہت جلد ڈال دیئے جائیں گے۔