وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور اپنے اموال آپس میں ناحق نہ کھاؤ (268) اور نہ معاملہ حکام تک اس غرض سے پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ ناجائز طور پر، جانتے ہوئے، کھا جاؤ
268: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر کھانے سے منع فرمایا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اگر قاضی رشوت لے کر ناحق فیصلہ کردیتا ہے، تو اس فیصلہ سے حرام حلال نہیں ہوجاتا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آدمی کے بارے میں ہے جس کے ذمے کسی کا مال ہو، اور مال والے کے پاس کوئی دلیل نہ ہو، اس لیے وہ آدمی انکار کر بیٹھے اور معاملہ حاکم کے پاس لے جائے تاکہ فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ گناہ گار ہے اور حرام کھانے پر تلا ہوا ہے۔ فائدہ : لوگوں کا مال حرام طور پر کھانے کی بہت سی شکلیں ہیں جیسے کسی کا مال غصب کرلینا، چوری کرنا، امانت میں خیانت کرنا، سود کھانا، جوا کا مال کھانا، خرید و فروخت میں دھوکہ دینا، ایسے کام کی اجرت جسے ٹھیک سے نہیں کیا، عبادت پر اجرت لینا، زکاۃ، صدقہ، وقت اور وصیت کا مال ناحق کھاجانا، اور اس قسم کی وہ تمام صورتیں جن میں لوگوں کا مال ناحق کھایا جا رہا ہو وہ اکل حرام ہے اور کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔