قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے سازش (١٦) کی تو اللہ نے ان کی عمارت کو جڑوں سے گرا دیا، پس ان پر چھت ان کے اوپر سے آگری، اور اللہ کا عذاب ان پر اس جہت سے آگیا جس کے بارے میں وہ سوچتے بھی نہیں تھے۔
(١٦) امام شوکانی اور صاحب فتح البیان نے اکثر مفسرین کی رائے نقل کی ہے کہ اس آیت میں مکر کرنے والے سے مراد نمرود بن کنعان ہے جس نے بابل میں ایک بہت ہی لمبی عمارت بنا کر آسمان پر چڑھنا چاہا تھا، تاکہ اہل آسمان سے جنگ کرے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک شدید آندھی کے ذریعہ اسے گرا دیا جس کے نیچے دب کر نمرود اور اس کے ماننے والے ہلاک ہوگئے، اسی نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا تھا اور وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا ظالم و جابر اور متکبر انسان تھا لیکن مفسرین کے قاعدے کے مطابق آیت کا یہ حکم ہر زمانے کے باطل پرستوں اور اللہ کے دین کے خلاف سازش کرنے والوں کو عام اور شامل ہے۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں ان مشرکین مکہ کے لیے دھمکی ہے جنہوں نے بعثت سے پہلے رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ انبیاء کے خلاف سازش کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی ایسا شدید انتقام لیا کہ انہیں بیخ و بن سے ختم کردیا، اور ان پر اس طرح اچانک عذاب مسلط کردیا کہ انہیں سوچنے کا بھی موقع نہیں ملا، یہ تو ان کا دنیا میں حال ہوا،