لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ
آپ کی جان کی قسم ! (٢٩) وہ لوگ اپنے گناہوں کے نشے میں دیوانہ ہوئے جارہے تھے۔
(29) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی باقی زندگی کی قسم کھا کر کہا کہ سدوم بستی کے رہنے والے بیشک اپنی گمراہیوں میں بھٹک رہے تھے، قاضی عیاض نے مفسرین کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی زندگی کی قسم کھائی ہے، لیکن ابن العربی کہتے ہیں کہ اس بات سے کون سی چیز مانع ہے کہ اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) کی زندگی کی قسم کھائے، اور جب اللہ لوط کی زندگی کی قسم کھا سکتا ہے، تو نبی کریم (ﷺ) کی زندگی کی قسم بدرجہ اولی کھا سکتا ہے، قرطبی نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے ور کہا ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے قصہ کے درمیان نبی کریم (ﷺ) کی زندگی کی قسم کھانا جملہ معترضہ ہوجائے گا۔ حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب اقسام القرآن میں جمہور مفسرین کی رائے کی تائید کی ہے، بلکہ یہاں حیاۃ لوط مراد لینے کو باطل قرار دیا ہے۔ ابو الجوزاء نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی زندگی کے علاوہ کبھی کسی دوسرے کی زندگی کی قسم نہیں کھائی ہے۔ قوم لوط پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ایک زبردست چیخ کی شکل میں صبح کے وقت نازل ہوا، اس کے بعد فرشتوں نے پوری بستی کو الٹ دیا، اور ان پر پتھروں کی بارش کردی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقینا ان باتوں میں غور کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں، اور وہ بستی مدینہ سے شام جانے والوں کے راستوں میں واقع ہے، اس راہ کا ہر مسافر اس کے باقی ماندہ آثار کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، یقینا ایمان والوں کو اس سے بڑی عبرت و نصیحت ملتی ہے۔