رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ
بسا اوقات (قیامت میں) کفار تمنا (٢) کریں گے کہ کاش وہ (دنیا میں) اسلام لے آئے ہوتے۔
(2) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (ﷺ) کے لیے بشارت ہے کہ آپ کا دین غالب ہو کر رہے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ کفار تمنا کریں گے کہ کاش وہ پہلے ہی مسلمان ہوچکے ہوتے تو انہیں بھی آج وہ مقام حاصل ہوتا جو ان کبار صحابہ کو حاصل ہے، جنہوں نے ابتدا میں ہی اسلام کی دعوت پر لبیک کہا، اللہ تعالیٰ نے سابقین اولین کے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ الحدید آیت (10) میں فرمایا ہے : کہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا مقام بہت ہی اونچا ہے، دوسرے لوگ ان کے برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس بشارت کے ضمن میں نبی کریم (ﷺ) کی ہمت افزائی بھی کی جارہی ہے کہ آپ دعوت کے کام میں صبر و استقامت کے ساتھ لگے رہیں کیونکہ انجام کار غلبہ آپ کو حاصل ہوگا، صاحب محاسن التنزیل نے یہی تفسیر بیان کی ہے لیکن ابن کثیر اور شوکانی وغیرہما نے لکھا ہے کہ کفار یہ تمنا یا تو موت کے وقت کریں گے یا قیامت کے دن۔ جب حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور انہیں اپنے دین و عقیدہ کے باطل ہونے کا یقین ہوجائے گا تب یہ تمنا کریں گے، ابن عباس اور انس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب مشرکین اور گناہ گار مسلمانوں کو جہنم میں اکٹھا کردے گا، تو مشرکین مسلمانوں سے کہیں گے کہ تمہاری توحید تمہیں کام نہیں آئی، تو اللہ تعالیٰ غضبناک ہو کر اپنے فضل و رحمت سے مسلمانوں کو جہنم سے نکال دے گا اس وقت مشرکین ایسا کہیں گے۔