سورة ابراھیم - آیت 21

وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور قیامت کے دن جب تمام لوگ اللہ کے سامنے حاضر (١٦) ہوں گے تو کمزور لوگ ان لوگوں سے کہیں گے جو دنیا میں تکبر کرتے تھے کہ ہم تمہارے پیچھے چلا کرتے تھے، تو کیا آج تم اللہ کے عذاب کا کوئی حصہ ہم سے ٹال دو گے؟ تو وہ کہیں گے کہ اگر دنیا میں اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم نے بھی تمہیں راہ راست پر لگایا ہوتا، چاہے ہم روئیں پیٹیں، چاہے صبر کریں، دونوں برابر ہے، ہمارے لیے چھٹکارے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(16) قیامت کے دن جب مجرمین میدان محشر میں جمع ہوں گے تو آپس میں خوب جھگڑیں گے اور ایک دوسرے سے اعلان برات کریں گے، دنیا میں جو مجرمین کمزور تھے اور اپنے سرداروں اور مالداروں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے دین کا انکار کردیا تھا، وہ ان سرداروں سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہاری بات مانتے رہے تھے، تو کیا آج ہمارا عذاب کچھ ہلکا کرسکتے ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو تمہیں بھی اس راہ پر لے چلے ہوتے، مطلب یہ کہ ہر ایک اپنی بے بسی کا اظہار کرے گا اور عذاب نار کے مزے چکھے گا جس سے چھٹکارا ملنے کی کوئی امید نہ ہوگی۔ (العیاذ باللہ) کافروں کے اسی جزع و فزع کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا آیت (31) میں یوں بیان فرمایا ہے : یعنی اے دیکھنے والے ! کاش کہ ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، اور ادنی درجے کے لوگ بڑے درجے کے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مسلمان ہوتے، اور سورۃ غافر آیت (47) میں فرمایا ہے : اور جبکہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر کرنے والوں سے، جن کے یہ تابع تھے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے پیروکار تھے، تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو؟ مذکورہ بالا آیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مجرمین محشر میں جہنم میں جانے سے پہلے آپس میں جھگڑیں گے اور جہنم میں جانے کے بعد بھی۔