كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ
ہم نے اسی طرح آپ کو ایسی قوم کے لیے رسول (٢٦) بنا کر بھیجا ہے جن کے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ آپ انہیں وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے، اور وہ لوگ نہایت رحم کرنے والے اللہ کی ناشکری کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ وہی میرا رب ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف مجھے لوٹنا ہے (یا وہی میرا ملجا و ماوی ہے)
(26) نبی کریم (ﷺ)کی نبوت کی تصدیق و تائید کے طور پر کہا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے پہلے بہت سے انبیاء مبعوث کیے، اب آپ کو مبعوث کیا ہے، تاکہ آپ کفار قریش اور دیگر لوگوں کو وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جو آپ کے لیے اللہ کا سب سے بڑا معجزہ، اور بنی نوع انسان کے لیے اللہ کی رحمت ہے، لیکن کفار اس ذات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں جس کی ایک صفت رحمن بھی ہے اور جس نے اپنی اسی صفت رحمت کے تقاضے کے مطابق انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم نازل فرمایا ہے، اور آپ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (107) میں فرمایا ہے : کہ ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ کفار قریش نے نعمت وحی کا شکر نہیں ادا کیا، اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رحمن اللہ کا نام اور اس کی ایک عظیم صفت ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے، تو رسول اللہ (ﷺ) نے اس کی جگہ اللہ لکھنے پر اکتفا کیا تھا۔ (بخاری) صحیح مسلم میں ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے اچھے نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔