سورة البقرة - آیت 165

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور بعض لوگ (240) ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں، اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے ہونی چاہیے، اور ایمان والے اللہ سے بے حد محبت کرتے ہیں، اور یہ ظالم لوگ (241) جب اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے، تب انہیں یقین آجائے گا کہ واقعی تمام قوت صرف اللہ کے پاس ہے، اور بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

240: اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی قدرت مطلقہ، اپنی توحید اور اپنی رحمت کی نشانیاں اس لیے بیان کردی ہیں، تاکہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں، اور صرف اسی سے محبت کریں، اس کی عبادت اور اس کی محبت میں کسی دوسرے کو شریک نہ بنائیں۔ لیکن مشرکین کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے بجائے دوسروں کی پرستش کرتے ہیں، اور اپنے معبودان باطلہ سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کی جانی چاہئے اور جو صادق الایمان ہوتے ہیں، وہ توحید باری تعالیٰ کا صحیح علم رکھنے کی وجہ سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں، اور زندگی کے تمام امور میں صرف اللہ کی جناب میں پناہ لیتے ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ، شرح المنازل، باب التوبہ میں فرماتے ہیں کہ شرک کی دو قسمیں ہیں : شرک اکبر اور شرک اصغر، شرک اکبر کو اللہ بغیر توبہ معاف نہیں کرتا، اور وہ یہ ہے کہ بندہ کسی کو اللہ کا شریک بنا لے، اور اس سے ویسی ہی محبت کرے جیسی اللہ سے کی جانی چاہئے اور یہ وہ شرک ہے جس میں مشرکین اپنے معبودانِ باطل کو رب العالمین کے برابر قرار دیتے ہیں، اور یہ برابری محبت، تعظیم اور عبادت میں ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر مشرکینِ عالم کا حال ہے، بلکہ اکثر مشرکین تو اپنے معبودوں سے اللہ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتے ہیں، اور ان کو یاد کر کے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ اگر ان کے معبودوں اور ان مشایخ کا جنہیں انہوں نے اپنا معبود بنا لیا ہے، کوئی شخص ادب و احترام کے ساتھ نام نہیں لیتا، تو اس قدر غضبناک ہوتے ہیں جس قدر وہ اللہ کا نام سوئے ادب سے لینے والے پر نہیں ہوتے، اور چیتے یا کتے کے مانند غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں اور اگر کوئی اللہ کے مقرر کردہ حدود کو پامال کرتا ہے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بلکہ تھوڑی سی دنیاوی لالچ کی خاطر فوراً خوش ہوجاتے ہیں، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ 241: مشرکین کے لیے دھمکی ہے کہ جب وہ ظالم، عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اور اپنے آپ کو اس میں گرفتار پائیں گے، تب شاید انہیں یقین آئے گا کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک تنکا بھی اس کی قوت تصرف سے خارج نہیں۔