اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں (٢) کے جنہیں تم دیکھ سکو، اوپر اٹھایا، پھر عرش مستوی پر مستوی ہوگیا، اور آفتاب و ماہتاب کو ڈیوٹی کا پابند بنا دیا، دونوں ایک معین مدت کے لیے چلتے رہتے ہیں، وہی تمام معاملات کا انتظام کرتا ہے، اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔
(2) چونکہ اوپر اللہ اور اس کی کتاب پر عدم ایمان کی بات آئی ہے، اس لیے آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی خالقیت کی دلیل پیش کی گئی ہے، نیز یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ جو باری تعالیٰ آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم رکھنے پر قادر ہے اور جس نے شمس و قمر اور دیگر سیاروں کو اپنے علم و قدرت کے مطابق مسخر کر رکھا ہے، اسی نے یہ قرآن کریم اپنے بندے اور رسول محمد (ﷺ)پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ بغیر ستونوں کے سہارے زمین سے اوپر اٹھا رکھا ہے، جن کی اونچائی کا ادراک نہیں کیا جاسکتا ہے، یہی قول راجح ہے۔ مجاہد اور عکرمہ کہتے ہیں کہ ستون تو ہیں، لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے ہیں، ایاس بن معاویہ کہتے ہیں کہ آسمان زمین کے اوپر قبہ کے مانند ہے، زمین اور اس کی تمام اشیا کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے۔ کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے، اور اس بارے میں سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے لیے استوا علی العرش کو ثابت کیا ہے، تو اس پر ایمان رکھا جائے، نہ اس کی کوئی کیفیت بیان کی جائے، نہ کسی دوسری شے کے ساتھ تشبیہ دی جائے اور نہ اس کی تاویل کر کے قرآن میں ثابت لفظ کو بیکار بنا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آفتاب و ماہتاب کو مخلوقات کے منافع اور بندوں کے مصالح و فوائد کے لیے مسخر کر رکھا ہے، اللہ کی مرضی سے ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے ہیں اور اپنی اسی رفتار پر اللہ کے حکم کے مطابق چلتے رہیں گے یہاں تک کہ دنیا فنا ہوجائے گی اور قیامت برپا ہوجائے گی، وہی باری تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے تمام امور میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق تصرف کرتا ہے، اس نے اپنی کمال قدرت اور ربوبیت و خالقیت کی نشانیاں قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہیں، تاکہ لوگ ان نشانوں میں غور کر کے اس بات پر ایمان لے آئیں کہ وہ قادر مطلق یقینا لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور میدان محشر میں جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب چکانے پر قادر ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ ممکن ہے تم ان نشانیوں میں غور و فکر کے بعد اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔