لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
یقینا ان قوموں کے واقعات میں عقل والوں کے لیے بڑی عبرت تھی (٩٨) یہ قرآن کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے کسی نے گھڑ لیا ہے، یہ تو آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، جو پہلے نازل ہوچکی ہیں اور اس میں ہر بات کی تفصیل ہے، اور یہ اہل ایمان کے لیے ذریعہ ہدایت اور باعث رحمت ہے۔
(98) انبیاء اور ان کی قوموں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت و نصیحت ہے، بعض لوگوں نے اس سے یوسف اور ان کے بھائیوں کا قصہ مراد لیا ہے، اس لیے کہ اس قصہ میں کئی قصے اور مختلف خبریں جمع ہوگئیں ہیں، اور کبھی جمع کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے، تو اگرچہ یہاں قصص استعمال کیا گیا ہے جو جمع ہے، لیکن وہ مفرد کے معنی میں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے محمد (ﷺ) نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ اللہ کا کلام ہے، جو گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ان میں جو صحیح باتیں رہ گئی ہیں ان کی تائید کرتا ہے اور انسانوں کی جانب سے تحریف کردہ احکام کا انکار کرتا ہے، اور کچھ احکام کو منسوخ قرار دیتا ہے۔ اور اس قرآن کریم میں ہر وہ بات بیان کردی گئی ہے جو انسانی زندگی میں پیش آسکتی ہے، یہ بنی نوع انسان کی راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور مؤمنوں کے لیے رحمت ہے کہ اس کی تصدیق و اتباع کر کے عذاب نار سے نجات پائیں گے۔