وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اور اپنے والدین کو شاہی تخت پر جگہ (٨٦) دی اور سبھوں نے ان کو سجدہ کیا، یوسف نے کہا، اے ابا ! میرے گزشتہ خواب کی یہی تعبیر ہے، اللہ نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور مجھ پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ مجھے جیل سے نکالا، اور آپ سب کو بادیہ سے یہاں پہنچایا، اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کردیا تھا، بیشک میرا رب جو چاہتا ہے اس کی نہایت اچھی تدبیر کرتا ہے، بیشک وہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔
(86) جب یوسف (علیہ السلام) اپنے باپ ماں کو لے کر دار السلطنت پہنچے تو انہیں اپنے ساتھ شاہی تخت پر بٹھایا اس وقت ان کے والدین اور گیارہوں بھائی ان کی تعظیم میں سجدہ میں گر گئے، تب یوسف (علیہ السلام) نے کہا ابا جان ! میرے گزشتہ خواب کی یہی تعبیر ہے، جسے اللہ نے سچ کر دکھایا ہے، اور اس نے مجھ پر یہ احسان کیا کہ مجھے جیل سے نجات دی، (اور کنواں سے اپنے نکالے جانے کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو، جنہیں پہلی ملاقات میں کہہ چکے تھے کہ ماضی کی غلطی پر تمہارا مواخذہ نہیں کیا جائے گا) اور اس کا یہ بھی احسان ہے کہ آپ سب کو بادیہ سے یہاں پہنچا دیا (کہتے ہیں کہ ان کا پیشہ مویشی پالنا تھا) اور شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان حسد کی جو آگ لگائی تھی وہ بجھ گئی اور ہم سب ایک ہوگئے۔