قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
انہوں نے کہا، اگر اس نے چوری کی ہے تو اس کے پہلے اس کے ایک بھائی نے بھی چوری (٦٥) کی تھی، یوسف نے ان کی اس کذب بیانی کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھا اور اس کا اثر اپنے اوپر ظاہر نہیں ہونے دیا، اور دل میں کہا، تم کتنے برے لوگ ہو اور جو جھوٹ تم بول رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
(65) جب پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہوگیا تو ان کے بھائیوں نے (عزیز کے سامنے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہم لوگ اس جیسے چور نہیں ہیں) کہا کہ اگر یہ چور نکلا تو اس کا بھائی بھی چور تھا، یوسف علی السلام نے ان کے اس جھوٹ پر ضبط سے کام لیا اور اپنے تاثرات کو ظاہر نہیں ہونے دیا اور دل میں کہا کہ تم کتنے برے لوگ ہو کہ خود یوسف کو اس کے باپ سے دھوکہ دے کرلے گئے تھے اور کنواں میں ڈال دیا تھا اور آج اس مظلوم و بے گناہ پر چوری کی تہمت دھرتے ہو، تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے۔