فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
یوسف نے اپنے بھائی (بنیامین) کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں میں تلاش کرنا شروع (٦٤) کیا پھر اپنے بھائی کے تھیلے سے پیالہ نکال لیا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی، وہ شاہ مصر کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے، سوائے اس کے کہ اللہ ایسا ہی چاہے، ہم جسے چاہتے ہیں کئی درجے بلند کرتے ہیں، اور ہر جاننے والے کے اوپر اس سے بڑا جاننے والا ہے۔
(64) اعلان کرنے والے نے بنیامین کے سامان سے پہلے بھائیوں کے سامان میں تلاش کیا، پھر بنیامین کے سامان سے پیالہ نکال لیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یوسف کی غرض پوری کرنے کے لیے ہم نے یہ تدبیر کی تھی، اس لیے کہ شاہ مصر کے قانون و دستور کے مطابق یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی بنیامین کو نہیں لے سکتے تھے، البتہ یعقوب (علیہ السلام) کے دین و شریعت میں یہ تھا کہ چور کو غلام بنا لیا جاتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود ان بھائیوں کی زبان سے ان کے باپ کے دین کے مطابق کہلوایا کہ جو چور ہوگا وہ بادشاہ کا غلام بنا لیا جائے گا، ان کا یہ کہنا اللہ کی مشیت کے مطابق تھا تاکہ یوسف اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک سکیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے علم کے ذریعہ یوسف کو بلند مقام دیا، اسی طرح ہم جسے چاہتے ہیں علوم و معارف دے کر اس کے ہم عصروں میں اسے عالی مقام بنا دیتے ہیں اور ہر علم والے سے بڑا علم والا ہوتا ہے، اسی لیے حسن بصری کہا کرتے تھے کہ ہر علم والے سے بڑا علم والا ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر ختم ہوجاتا ہے، اس سے بڑا کوئی عالم نہیں اور اس کا علم بحر بے کنار ہے۔