وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب وہ لوگ (مصر میں) اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، تو یہ تدبیر اللہ کی کسی تدبیر کو ان سے نہیں ٹال (٦٠) سکتی تھی، یہ تو یعقوب کے دل کی ایک بات تھی جو انہوں نے پوری کی تھی اور ہم نے انہیں جو علم دیا تھا اس کے سبب وہ (تدبیر و تقدیر کے مسائل کو) خوب جانتے تھے، لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں۔
(60) باپ کے کہنے کے مطابق مختلف دروازوں سے ان کا داخل ہونا اللہ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتا تھا، اور نہ یعقوب کا ایسا خیال تھا، یہ تو ان کی شفقت پدری تھی جس کا انہوں نے اس طرح اظہار کیا تھا، انہیں اللہ نے نبی بنایا تھا اور آسمانی علم و حکمت سے نوازا تھا، انہیں معلوم تھا کہ تدبیر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی ہے، اور اللہ کے فیصلے کو بہرحال وقوع پذیر ہونا ہے، لیکن بہت سے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اسباب میں تاثیر ہوتی ہے، جو ان کی خام خیالی ہے اور تقدیر پر ایمان لانے کے مخالف عقیدہ ہے۔