وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ
اور یوسف کے بھائی آئے (٥٢) اور ان کی مجلس میں داخل ہوئے تو انہوں نے سب کو پہچان لیا اور ان سب نے ان کو نہیں پہچانا۔
(52) اب یوسف کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے، سرزمین مصر میں سات سال تک خوب بارش ہوئی، زمین کی زرخیزی کئی گنا بڑھ گئی، کہا جاتا ہے کہ ملک میں سمندر کی ریت کی مانند غلے کی کثرت ہوگئی، یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے ہر شہر کے اردگرد کے غلے اس شہر میں جمع کیے جاتے رہے، سات سال کے بعد مصر و شام اور گرد و نواح میں زبردست قحط سالی شروع ہوگئی، لوگ دور دور سے آنے لگے تاکہ اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لیے غلہ حاصل کریں، کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ مصر کے خزانوں کے انچارج نے غلے کی بہت بڑی مقدار جمع کر رکھی ہے، انہی آنے والوں میں یوسف کے بھائی بھی تھے، جنہیں ان کے باپ یعقوب (علیہ السلام) نے فلسطین سے بھیجا تھا، ان کا قافلہ دس افراد پر مشتمل تھا، ان لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا، لیکن انہوں نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا، انہوں نے سلام کیا اور ان کا تعظیمی سجدہ کیا تو انجان بن کر پوچھا کہ تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کنعان سے، یوسف نے کہا، تم لوگ جاسوس معلوم ہوتے ہو، یہاں جاسوسی کی غرض سے آئے ہو، انہوں نے کہا کہ اللہ کی پناہ، ہم تو آپ کے غلام ہیں اور غلہ کے لیے آئے ہیں، ملک میں قحط کی وجہ سے ہماری حالت غیر ہوگئی ہے، اور ہم سب بھائی ہیں، ایک ہی باپ کی اولاد ہیں، یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تم لوگ کتنے بھائی ہو؟ انہوں نے کہا ہم بارہ بھائی تھے، ایک مرگیا، یوسف نے پوچھا کہ یہاں تم لوگ کتنے ہو؟ انہوں نے کہا دس، یوسف نے پوچھا گیارہواں بھائی کہاں ہے؟ کہا باپ کے پاس، کہا میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم سچے ہو، اس لیے ایک بھائی بطور رہن یہاں رہے اور باقی غلہ لے جائیں اور چھوٹے بھائی کو لے کر آئیں ورنہ آئندہ تم لوگوں کو غلہ نہیں ملے گا۔ چنانچہ شمعون کو روک لیا، اور باقی کو اجازت دے دی اور انہیں زاد سفر دینے کا حکم صادر کیا۔ آیات (59، 60) میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے۔