ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ
یوسف نے کہا، میں نے یہ سوال اس لیے کیا ہے تاکہ عزیز کو یقین ہوجائے کہ میں نے پوشیدہ طور پر اس کی عزت میں خیانت (٤٦) نہیں کی ہے، اور بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو کی چال کو کامیاب نہیں ہونے دیتا ہے۔
(46) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ (طویل جملہ معترضہ کے بعد) یہ بھی یوسف (علیہ السلام) کا قول ہے، یعنی جیل سے نکلنے سے پہلے انہوں نے عورتوں سے اور عزیز کی بیوی سے اس لیے ان کی غلطیوں کا اعتراف کروانا چاہا تاکہ عزیز مصر کو معلوم ہوجائے کہ انہوں نے پوشیدہ طور پر اس کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے، آخر میں اس طرف اشارہ ہے کہ زلیخا کا مکرو فریب اس کے کام نہ آیا، اور اپنے شوہر کے ساتھ اس کی خیانت اس کی ذلت و رسوائی کا سامان بن گئی، اور خود عزیز مصر کی طرف اشارہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی برات اس کے سامنے ظاہر ہوجانے کے باوجود زلیخا کے اشارہ پر اس صدق و صفا اور امانت و دیانت کے پیکر کو جیل میں ڈال دیا۔