وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا، اسے میرے پاس لاؤ (٤٤) پس جب ان کے پاس قاصد آیا، تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ، اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کے بارے میں اسے کیا خبر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جانتا ہے۔
(44) جب ساقی خواب کی تعبیر لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا، تو سن کر اسے بڑا تعجب ہوا اور اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کے خواب کی یہی تعبیر ہے اور اسے اس بات کا بھی یقین ہوگیا کہ یوسف کوئی غیر معمولی انسان ہیں، اور خوابوں کی سچی تعبیر کا علم ملک میں ان سے زیادہ کسی کے پاس نہیں ہے، اور یہ کہ وہ نہایت ہی اخلاق مند اور انسان دوست آدمی ہیں کہ جیل کی مصیبتوں سے دوچار ہونے کے باوجود خواب کی تعبیر کے ساتھ قحط سالی کے برے آثار سے بچنے کی تدبیر بھی بتائی ہے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ انہیں جیل سے فورا نکال کر اس کے پاس لایا جائے، جب بادشاہ کا پیغامبر ان کے پاس آیا تو انہوں نے جیل سے نکلنے میں جلدی نہیں کی اور کہا کہ تم اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ جن عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، ان کے بارے میں اس کے پاس کیا خبر ہے؟ اور ان کا مقصد یہ تھا کہ پہلے ان کی عفت اور گناہ سے برات کا اعلان ہوجائے، پھر جیل سے باہر جائیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) میں غایت درجہ کا تحمل اور حلم و بردباری پائی جاتی تھی، جو عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے، بخاری و مسلم نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا : اگر میں جیل میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت یوسف رہے تو قاصد کی بات مان کر اس کے ساتھ جیل سے نکل کر بادشاہ کے پاس فورا چلا جاتا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے عزیز کی بیوی کے بجائے دوسری عورتوں سے پوچھنا اس لیے بہتر سمجھا کہ وہ عورت کہیں کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کردے اور اس امید میں بھی کہ ممکن ہے کہ وہ عورتیں عزیز کی بیوی کے اعتراف کی گواہی دیں اور بادشاہ کو بتائیں کہ اسی نے یوسف کو گناہ کی دعوت دی تھی اور خود انہوں نے بھی یوسف کو عفت و پاکدامنی کی جس بلندی پر پایا اس کی بھی گواہی دیں۔