بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔
نام : اس کا نام سورۃ یوسف اس لیے رکھا گیا کہ اس کی اکثر و بیشتر آیتوں کا تعلق یوسف (علیہ السلام) سے ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالاتفاق مکی ہے، ابن الجوزی نے اس پر ائمہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے، اسے سورۃ ہود کا تتمہ بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ سورۃ ہود میں مذکور سات انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کیے جانے کے بعد اس سورت میں یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کے بھی مرکزی مضامین تقریبا وہی ہیں جو مکی سورتوں کا خاصہ ہیں، یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دینا، اور نبی کریم (ﷺ) کی ہمت افزائی کرنی اور انہیں تسلی دینی کہ انبیائے کرام ہمیشہ ہی آزمائشوں سے گزر کر اپنی دعوت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں، اور یہ کہ جس طرح یوسف (علیہ السلام) غریب الدیاری، قید و بند اور عزت و ناموس میں شدید آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر مصر کی حکومت کے مالک بن بیٹھے، اور ان کے بھائیوں کو ان کی جناب میں ہی پناہ لینی پڑی، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد(ﷺ) کو بھی بالآخر کفار قریش پر غلبہ دے گا، اور انہیں آپ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے، اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا، فتح مکہ کے بعد کفار قریش آپ کے سامنے جمع کیے گئے تو آپ نے ان سے سوال کیا کہ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ میں تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ کروں گا؟ انہوں نے کہا کہ اخ کریم وابن اخ کریم کہ آپ ہمارے کریم النفس بھائی ہیں، اور کریم النفس بھائی کے بیٹے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میں آج تمہیں وہی کہتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو کہا تھا کہ آج تم پر کوئی پابندی نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار قریش نے یہودیوں کے ایماء پر نبی کریم (ﷺ) سے یعقوب اور ان کی اولاد کے بارے میں سوال کیا، اور ان کا خیال تھا کہ وہ جواب نہ دے سکیں گے تو یہ سورت نازل ہوئی، لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے، اور اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں ہے، بات وہی صحیح ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔