فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
پس تم لوگ مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر اد کرو اور ناشکری نہ کرو
ان احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ تم مجھے یاد کرتے رہو اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں یاد کرتا رہوں گا، اور میرا شکر ادا کرتے رہو، اور کفرانِ نعمت نہ کرو، امام احمد اور امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ اللہ عز وجل کہتا ہے میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں۔ الحدیث اور امام مسلم نے ابوسعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ان دونوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں گواہی دی کہ آپ نے فرمایا : جب کوئی جماعت اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھتی ہے تو فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں، رحمت انہیں ڈھانک لیتی ہے، ان پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے، اور اللہ انہیں پاس رہنے والوں کے درمیان یاد کرتا ہے۔ فائدہ : ذکرِ الٰہی صرف تسبیح و تہلیل اور تحمید و تکبیر میں منحصر نہیں ہے، بلکہ ہر وہ عمل جو قرآن و سنت کے مطابق ہو، اور جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو وہ ذکر الٰہی ہے۔ امام ابن القیم (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والے تھے، ان کی گفتگو، ان کا امر و نہی، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، احکام و افعال اور وعدہ و وعید کے بارے میں ان کی حدیثیں، ان کا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا، اللہ تعالیٰ سے سوال و دعا، جنت کی رغبت دلانا، اور جہنم سے ڈرانا، ان کی خاموشی، سب کچھ ذکر الٰہی تھا۔ وہ ہر وقت اور ہر حال میں، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے اور سفر و حضر میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے، انتہی۔ ذکر الٰہی کے وہ تمام طریقے اور وہ حرکات و سکنات جو گمراہ صوفیا نے ایجاد کرلیے ہیں، جن کا ثبوت صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام سے نہیں ملتا، بدترین بدعت ہیں، انہوں نے سماع کے نام سے اپنی محفلوں میں رقص و موسیقی کو داخل کردیا، اور مسلمانوں کو قرآن سننے اور سنانے سے روک دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب جمع ہوتے تھے تو ان میں سے ایک قرآن پڑھتا تھا، اور باقی لوگ سنتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری (رض) سے کہتے تھے، ذکرنا ربنا، کہ ہمیں ہمارے رب کی یاد دلاؤ، چنانچہ وہ قرآن پڑھتے اور عمر سنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ، جب ان کے سامنے اللہ کے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ سجدے میں روتے ہوئے گر پڑتے ہیں (مریم : 58)۔ ایک دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا ہے: ۔ کہ اللہ نے سب سے اچھی حدیث نازل کی ہے جو اسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے جسم کانپ اٹھتے جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔ پھر ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں۔( الزمر : 23)۔ معلوم ہوا کہ قرآن وسنت کے حدود میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت مبارکہ کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھالنا، قرآن کریم کی تلاوت اور قرآن کریم کو سمجھنا اور سمجھانا، ذکر الٰہی کے صحیح طریقے ہیں۔ وہ تسبیحات جن کا ثبوت قرآن و سنت سے نہیں ملتا، مثلاً پالتی مار کر اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا اور دعوی کرنا کہ اللہ کا تصور دل و دماغ میں بسایا جا رہا ہے، حق ھو کے نعرے لگانا، دل پر لا الہ الا اللہ کی ضربیں لگانا، حلقے بنا کر بیٹھ جانا اور سری یا جہری ذکر میں بزعم خود مشغول ہونا، یہ اور اس قسم کے افعال و حرکات کا، مشروع ذکرِ الٰہی سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ ہر وہ کام جس کا ثبوت ہماری شریعت میں نہیں ملتا، وہ مردود ہے۔ چاہے وہ کوئی عقیدہ ہو کوئی نظریہ ہو کوئی قول وعمل ہو، اور چاہے ذکر کے خود ساختہ طریقے ہوں، سبھی کچھ مردود ہے اگر قرآن و سنت سے اس کو ثبوت نہیں ملتا، اگر کوئی شخص زندگی بھر مراقبہ میں بیٹھا رہ جائے اور اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ اللہ کی یاد میں مشغول ہے، لیکن اس کے اس عمل کا ثبوت قرآن وسنت سے نہیں ملتا، تو اس کی ساری محنت بے کار ہے، بلکہ قیامت کے دن وبال جان بن کر اس کے سامنے آئے گی۔