وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور ہم نے موسیٰ (٨٠) کو اپنے معجزات اور روشن دلیل دے کر بھیجا۔
(80) اس آیت کریمہ سے آیت (98) تک موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بہت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور یہ ساتواں واقعہ ہے جو اس سورت میں انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ آیات اور İسُلْطَانٍ مُبِينٍĬ کے معنی کی تعیین میں مفسرین کے کئی اقوال آئے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آیات سے مراد وہ نو نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دی تھیں اور سے مراد عصائے موسوی ہے، جو اگرچہ نو نشانیوں میں شامل ہے، لیکن چونکہ اس کی ایک خاص حیثیت تھی، اسی لیئے اس کا ذکر مستقل طور پر کیا گیا ہے، اور فرعون کے ساتھ صرف سرداران قوم کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ عوام اپنے تمام امور میں انہی سرداروں کی پیروی کرتے تھے، اور سرداران اپنے کفر و عناد میں فرعون کی پیروی کرتے تھے، جس کا ہر معاملہ ضلالت وگمراہی لیے ہوئے تھا۔