فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
پس اے نبی ! آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے اس کا بعض حصہ شاید آپ چھوڑ دیں گے اور اس سے شاید آپ تنگ دل ہورہے ہیں، ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، یا اس کی تائید کے لیے کوئی فرشتہ (١١) کیوں نہیں آجاتا، آپ تو لوگوں کو اللہ کے عذاب سے صرف صرف ڈرانے والے ہیں، اور ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے۔
(11) کفار مکہ نبی کریم (ﷺ) سے بار بار کہتے تھے کہ تمہاری صداقت کی گواہی دینے کے لیے آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتر آتا، یا اللہ تمہارے لیے کوئی خزانہ کیوں نہیں بھیج دیتا، یا کوئی باغ ہی کیوں نہیں اگا دیتا؟ یہ اور اسی طرح کے دیگر معاندانہ سوالوں سے رسول اللہ (ﷺ) کبھی دل برداشتہ ہوجاتے تھے، تو اللہ نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ایسا گزشتہ انبیاء کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے، ان کی قوموں نے بھی انہیں جھٹلایا تو انہوں نے صبر کیا، اس لیے آپ بھی صبر سے کام لیجیے اور دل برداشتہ ہو کر اور کافروں کا دل رکھنے کے لیے قرآن کریم کی ان آیتوں کی تبلیغ سے رک نہ جایے، جنہیں کفار سننا نہیں چاہتے، آپ کا کام تو پیغام الہی کو من و عن پہنچا دینا ہے، آسمان سے نشانیاں نازل کرنا تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔