أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
آگاہ رہیے ! وہ لوگ اپنے سینوں (٥) کو موڑ لیتے ہیں تاکہ اس سے اپنے دل میں پوشیدہ کفر و عناد کو چھپائیں، آگاہ رہیے ! جس وقت وہ اپنے کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی وہ ان کی وہ تمام باتیں جانتا ہے جنہیں وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ سینوں میں پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔
(5) کفار مکہ کے بارے میں خبر دی جارہی ہے کہ کوئی بھی دھمکی اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی کوئی بھی ترغیب ان کی حالت کفر و شرک کو نہ بدل سکی، بلکہ ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ بعض کفار مکہ رسول اللہ (ﷺ) کی بات سننے سے اعراض کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے اس اعراض کا علم اللہ یا اس کے رسول کو نہ ہو۔ میں گزشتہ معنی کی تاکید ہے، کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم اپنے دروازے بند کرلیں گے اور کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانک لیں گے، اور اپنے سینوں میں محمد کی عداوت کو چھپائے رکھیں گے تو کسے خبر ہوگی؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ کفار مکہ حقیقت معنوں میں ایسا کرتے تھے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) ان کے پاس سے گزرتے تو اپنا منہ پھیر لیتے اور آپ کی طرف پیٹھ کرلیتے اور کپڑے سے اپنا منہ ڈھانک لیتے تاکہ آپ کی کوئی بات ان کے کان میں نہ پڑجائے۔ میں انہی کفار کو بتایا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے اپنی حقیقت چھپانے کی ہزار کوشش کرو، کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تو سب کچھ جانتا ہے، وہ تو سینوں کے تمام رازوں کو جانتا ہے۔ امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام میں کچھ لوگ قضائے حاجت یا بیوی سے ہمبستری کرتے وقت اپنی شرمگاہ کھولتے ہوئے شرماتے کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک دوسری روایت ہے کہ یہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو رسول اللہ (ﷺ) سے جب ملتا تو چکنی چپڑی باتیں کرتا اور دل میں آپ کی عداوت چھپائے رکھتا، اکثر مفسرین نے آیت کی پہلی تفسیر کو ہی ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم۔