وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت (٣) طلب کرو، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو، وہ تمہیں ایک محدود وقت (یعنی موت) تک عمدہ عیش و آرام کا فائدہ اٹھانے دے گا، اور ہر زیادہ کار خیر کرنے والے کو اس کا اجر و ثواب دے گا، اور اگر تم لوگ راہ حق سے منہ پھیر لو گے تو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
(3) یہ بھی نبی کریم (ﷺ) کی زبانی ایک کلام کا حصہ ہے، یہاں طلب مغفرت اور توبہ کا ذکر آیا ہے، اور دونوں تقریبا ایک ہی معنی میں مستعمل ہیں، اس لیے مقصود توبہ کرنا اور اس میں اخلاص پیدا کرنا ہے، اور ایسے استغفار و توبہ پر اللہ نے دو چیزوں کا وعدہ کیا ہے، پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان مخلص بندوں کو دنیا کی نعمتوں سے ایک طویل مدت تک مستفید ہونے کا موقع دے گا، ان کی روزی میں برکت عطا فرمائے گا اور دیگر نعمتوں سے بھی خوب نوازے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی وعدے کو سورۃ النحل کی آیت (97) میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : کہ جو مؤمن (مرد یا عورت) عمل صالح کرے گا، ہم اسے اچھی زندگی عطا کریں گے، اور دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیک نیتی اور عمل صالح کے جزا کے طور پر آخرت میں جنت دے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی ہی زبانی ان لوگوں کو دھمکی دی جو توبہ و استغفار اور عبادت میں اخلاص سے اعراض کرتے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔