وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر (٥٩) پار کرادیا، تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی میں آکر اور حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہا، میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں اب فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
(59) موسیٰ (علیہ السلام) مسلمانوں کے ساتھ جب سمندر کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ فرعون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا ان کے قریب آگیا ہے اور قریب ہے کہ انہیں آلے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی پانی پر ماریں، انہوں نے جونہی ایسا کیا، سمندر کا پانی دو حصوں میں بٹ کر دو پہاڑوں کے مانند کھڑا ہوگیا، زمین خشک ہوگئی، اور موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر پار کر گئے، فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ (جس کی تعداد قرطبی کے قول کے مطابق پچیس لاکھ سے زیادہ تھی) موسیٰ اور بنی اسرائیل کا پیچھا کیا (جن کی تعداد تقریبا چھ لاکھ بیس ہزار تھی) اور جب بیچ سمندر میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کا کھڑا پانی ان پر لوٹا دیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے، فرعون نے جب اپنی موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لائے ہیں، اور میں اب مسلمان ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان کو رد کردیا اور کہا کہ اب ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے جبکہ اس لمحہ سے پہلے تک تم نافرمانی کرتے رہے ہو، اور زمین میں فساد پھیلاتے رہے ہو، اور آج میں تمہارے جسم کو ایک اونچی زمین پر ڈال دوں گا تاکہ تم آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنے رہو، اور تاکہ لوگ جان لیں کہ تو ایک حقیر بندہ تھا اللہ اور معبود نہیں تھا۔