قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
فرعونیوں نے کہا، کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اس راہ سے الگ کردو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا تھا، اور تاکہ اس ملک کی سرداری تم دونوں بھائیوں کو مل جائے اور ہم لوگ تم دونوں پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
جب فرعون نے اس قطعی دلیل کے سامنے اپنے آپ کو بالکل عاجز پایا تو کہنے لگا کہ کیا تم ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہو؟ اور کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تمہیں اپنا حاکم و آقا مان لیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اسی دنیاوی بڑائی اور کرسی کی محبت نے ہر دور میں کتنوں کو قبول حق سے روک دیا، اور اپنے آپ کو باطل پر سمجھتے ہوئے، اس پر اصرار کیا، اسی بیماری کی وجہ سے کتنے کفر پر، کتنے بدعت پر، اور کتنے صحیح حدیث ہونے کے باوجود اپنی فاسد رائے پر جمے رہے۔