فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
پس اگر یہ (یہود و نصاری) تمہاری طرح ایمان (٢٠٠) لے آئے، تو راہ راست پر آگئے، اور اگر انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا، تو (اس لیے کہ وہ) مخالفت و عداوت پر آگئے، پس اللہ آپ کے لیے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا، اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جانے والا ہے
200: یعنی اے مسلمانو ! اگر اہل کتاب (یعنی یہود) اسی ایمان سے متصف ہوجائیں جس ایمان سے تم لوگ متصف ہو اور جس کا ذکر ابھی ہوچکا، تو وہ لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں گے۔ اور اگر انہوں نے محض آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ کر حق سے روگردانی کی، تو اللہ اپنے رسول سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کے شر کو آپ سے دور رکھے گا، اور ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، کچھ قتل کردئیے گئے، کچھ قید کرلئے گئے، اور کچھ جلا وطن کردئیے گئے اور ہر طرف تتر بتر ہوگئے، اور یہ قرآن اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جیسا قرآن نے خبر دی تھی ایسا ہی وقوع پذیر ہوا۔ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ بنو قریظہ نے جب سعد بن معاذ (جو ان کے حلیف تھے) کو حکم تسلیم کرلیا۔ تو رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کو بلا بھیجا، وہ ایک گدھے پر آئے، جب مسجد کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے انصار سے کہا، تم لوگ اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ پھر ان کو بتایا کہ بنو قریظہ والوں نے تمہیں حکم مان لیا ہے، تو انہوں نے فرمایا، آپ ان کے جنگ کرنے والوں کو قتل کردیں، اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیں، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا، تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ صحیح بخاری کی دوسری روایت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے مسلمانوں سے جنگ کی، تو بنو نضیر جلا وطن کردئیے گئے، اور بنو قریظہ احسان کر کے چھوڑ دئیے گئے، لیکن بنو قریظہ نے پھر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا گیا، اور عورتوں، بچوں اور ان کی جائدادوں کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا گیا، سوائے ان بعض لوگوں کے جو پہلے ہی آکر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مل گئے تو آپ نے ان کو امن دے دیا، اور وہ لوگ مسلمان ہوگئے، اس کے بعد تمام یہود مدینہ کو اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جلا وطن کردیا اور مدینہ ان کے وجود سے پاک ہوگیا۔