هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتی (٢١) میں ہوتے ہو، اور وہ کشتیاں موافق ہواؤں کے سہارے انہیں لے کر چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کی رفتار سے خوش ہوتے ہیں کہ اچانک ایک تیز ہوا ان کشتیوں کو آلیتی ہے ور ہر چہار جانب سے موج ان لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر پھنس گئے ہیں، تو وہ اللہ کو اس کے لیے مکمل طور پر بندگی کو خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں کہ اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہوجائیں گے۔
(21) اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشرکین کی بدعہدی کی ایک دوسری شکل یہ ہے کہ وہ کشتیوں میں سوار ہو کر موافق ہواؤں کے سہارے اپنی منزل کی طرف رواں ہوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ اچانک طوفان کی زد میں آجاتے ہیں اور موج انہیں ہر طرف سے گھیرے میں لے لیتی ہے، تو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں، اور دل میں اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر انہیں موت سے نجات مل گئی تو اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں گے، لیکن جب انہیں اس بھنور سے نجات مل جاتی ہے تو پھر سے کبر و عناد کرنے لگتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ تمہاری سرکشی تمہارے علاوہ کسی اور کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اور یہ کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے، پھر تمہیں اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، جہاں اللہ تمہیں تمہارے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دے گا۔