وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب انسان کو تکلیف (١٢) پہنچتی ہے تو اپنے پہلو کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا اس نے اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جو اسے پہنچی تھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔
(12) ان کافروں کا حال بھی عجیب ہے کہ جب رسول اللہ انہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں تو استکبار میں آکر عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر اللہ کبھی انہیں گرفت میں لے لیتا ہے تو اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں، اور جب اللہ ان کی تکلیف دور کردیتا ہے تو دعا اور گریہ و زاری کو ایسا بھول جاتے ہیں کہ جیسے کبھی اللہ کو پکارا ہی نہیں تھا۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ حالت کافروں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بہت سے مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو خوب دعائیں کرتے ہیں اور اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں، اور جب وہ مصیبت ٹل جاتی ہے تو دعا اور گریہ و زاری سے غافل ہوجاتے ہیں، اور اللہ کی نعمت اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔