إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بیشک تمہارا رب وہ اللہ (٣) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہو کر تمام امور کی دیکھ بھال کرنے لگا، اس کی جناب میں کوئی سفارشی (٤) نہیں، الا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد کوئی سفارش کرے، وہی اللہ تمہارا رب (٥) ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو، کیا تم ان باتوں سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ہو۔
(3) مشرکین قریش کے تعجب کی تردید ہے کہ جو ذات باری تعالیٰ ایسی عظیم ترین قدرتوں کا مالک ہو جن کے تصور و ادراک سے عقلیں عاجز ہوں، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے انہی میں سے ایک رسول بھیج دے؟ اس آیت کی تفسیر تک سورۃ اعراف آیت (45) میں گزر چکی ہے، امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں کے مسئلہ میں جہمیہ پر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ استوی کا معنی ابو العالیہ نے ارتفع اور مجاہد نے علا کیا ہے، یعنی استوا کی بغیر کوئی مثال اور بغیر کوئی کیفیت بیان کیے ہوئے، اس کے بعد لکھا ہے کہ عرش وہ جسم ہے جو تمام کائنات کو محیط ہے اور تمام مخلوقات سے عظیم تر ہے، اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کی دیکھ بھال کرتا ہے، ان کے لیے اپنے اوامر صادر فرماتا ہے، اور اپنی معلوم حکمتوں کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے۔ (4) مشرکین مکہ کے معروف عقیدہ باطلہ کی تردید ہے کہ ان کے اصنام اللہ کے یہاں ان کے سفارشی بنیں گے، اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : کہ اس کی اجازت کے بغیر کون اس کی جناب میں سفارش کرسکتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ تنہا اللہ کی ذات تمام امور دو جہاں کا مختار کامل ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ (5) وہی ذات واحد جو مذکورہ بالا عظیم قدرتوں کا مالک ہے، وہی اللہ ہے اور وہی تمہارا رب ہے، اس لئے تم لوگ اسی کی عبادت کرو، اور ان بے جان بتوں، پتھروں، درختوں اور جمادات کی عبادت نہ کرو جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں، اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ نقصان۔