أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ
کیا لوگوں کو اس پر تعجب (٢) ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کی کہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایئے اور مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے کہ ان کا ان کے رب کے نزدیک بلند مقام ہے؟ کافروں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادوگر ہے۔
(2) مشرکین مکہ اس بات پر حیرت کرتے تھے کہ انہی جیسا ایک آدمی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حیرت پر نکیر کی ہے کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ اگر وہ رسول فرشتہ یا جن ہوتا تو حیرت کی بات تھی، اس لیے کہ بنی نوع انسان یا تو اسے دیکھ نہیں پاتے، یا اگر دیکھ پاتے تو اس سے مانوس نہیں ہوتے، کیونکہ انسان اپنے ہی جیسے جسد خاکی رکھنے والے انسان کے ساتھ مانوس ہوتا ہے، اس لیے نبی کریم کا مبعوث ہونا فطرت اور عقل کے تقاضے کے مطابق تھا، اور جب مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ لوگوں کو آخرت کے دن کے عذاب سے ڈرائیں، اور مؤمنوں کو خوشخبری دیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے ایمان اور عمل صالح کا اچھا سے اچھا بدلہ دے گا، اور شافع محشر محمد ان کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ لیکن کفار قریش نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور جب ان سے کچھ نہ بن پڑا، تو کہنے لگے کہ یہ آدمی تو صریح جادوگر ہے، اور یہ قرآن کھلا جادو ہے جو انسانوں کو مسحور کردیتا ہے، یہ آسمان سے نازل شدہ اللہ کی کوئی کتاب نہیں ہے۔