سورة التوبہ - آیت 124

وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب کوئی سورت نازل (٩٩) کی جاتی ہے، تو منافقین میں سے بعض (بطور استہزا) پوچھتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ہے؟ پس جو اہل ایمان ہیں ان کے ایمان میں اضافہ کردیا ہے اور وہ اس سے خوش ہورہے ہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(99) جیسا کہ اوپر کی آیتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس سورت میں منافقین کی ظاہری اور باطنی خباثتوں کے بہت سے احوال و کوائف بیان کیے گئے ہیں، اسی لیے اس سورت کا ایک نام فاضحہ بھی ہے، یعنی ایسی سورت جو منافقین کے عیوب کو بیان کرتی ہے، مندرجہ ذیل چار آیتیں اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔ قرآن کریم کی جب کوئی نئی سورت منافقین کے غائبانے میں نازل ہوتی اور انہیں خبر ہوتی تو آپس میں بیٹھ کر مذاق اڑاتے اور کہتے کہ بھئی اس سورت کے نزول کے بعد تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟ شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منافقین یہ بات بعض مسلمانوں سے ہی کہا کرتے تھے کہ یہ جو نئی سورت نازل ہوئی ہے، تو کونسا تمہارے ایمان میں اضافہ ہوگیا ہے، اور ان کا مقصد انہیں اسلام سے برگشتہ کرنا ہوتا تھا، یعنی یہ کوئی ایسا دین نہیں ہے جس کی خاطر آدمی دن کا چین اور رات کا سکون کھوئے اور اپنی جان جوکھم میں ڈالے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس استہزاء اور استخفاف کا یہ جواب دیا کہ ہاں، قرآن کی یہ آیتیں اور یہ سورتیں اہل ایمان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں، اس لیے کہ ہر سورت اور ہر آیت میں کوئی ایسی مفید بات اور نصیحت ہوتی ہے جو انہیں پہلے سے معلوم نہیں ہوتی ہے، اور وہ اپنے ایمان و اخلاص کی وجہ سے ان دنیاوی اور دینی فوائد و مصالح کو پاکر دل سے خوش ہوتے ہیں۔ جمہور محدثین کی رائے یہی ہے کہ مؤمن کے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ عمل صالح ایمان میں داخل ہے تو بات بالکل واضح ہے کہ آدمی جتنا زیادہ عمل کرتا جاتا ہے اس کا ایمان بڑھتا جاتا ہے، اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے، تو بھی بات واضح ہے اس لیے کہ انبیائے کرام اور صحابہ رسول کا ایمان عام مسلمانوں کے ایمان سے یقینا زیادہ ہوتا ہے۔