خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
آپ ان کے اموال کی زکوۃ وصول کیجیے (٨١) تاکہ ان کو پاک کیجیے اور اس کے ذریعہ ان کے باطن کا تزکیہ کیجیے، اور ان کے لیے دعا کرتے رہیے، بیشک آپ کی دعائیں ان کے لیے باعث سکون ہیں اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
(81) ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہم نے روایت کی ہے کہ جن سات صحابہ نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا، جب ان کی توبہ قبول ہوگئی تو وہ اپنا مال لے کر رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ اسی مال کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے تھے، اس لیے یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اسے لینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا دیا کہ ان سے صدقہ لیجیے جو ان کی طہارت اور تزکیہ نفس کا ذریعہ بنے گا، اور ان کے لیے دعائے خیر و برکت کیجیے، اس لیے کہ آپ کی دعا مسلمانوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ چنانچہ نبی کریم نے ان کے مال کا ایک تہائی حصہ بطور صدقہ لے لیا، اور باقی انہیں واپس کردیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت اگرچہ مذکورہ بالا صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، لیکن وجوب زکاۃ کے بارے میں اس کا حکم عام ہے، اور مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ تمام مسلمانوں سے زکاۃ وصول کریں، اور اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق مسلمانوں میں تقسیم کریں۔