وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
اور نہ ان کے لیے کوئی گناہ کی بات ہے جو آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کے لیے سواری (70) کا انتظام کردیں، تو آپ نے کہا کہ میرے پاس تمہارے لیے کوئی سواری نہیں ہے، تو وہ واپس ہوگئے در آنحالیکہ ان کی آنکھوں سے غم کے مارے آنسو جاری تھے کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے
70۔ حافظ ابن مردویہ اور عوفی رحمہما اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کرام کو غزوہ تبوک کے لیے روانگی کا حکم دیا تو کچھ صحابہ آئے جن میں سر فہرست عبداللہ بن مغفل المزنی تھے، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! ہمیں سواری دیجئے، آپ نے کہا کہ اللہ کی قسم میرے پاس تم لوگوں کے لیے سواریاں نہیں ہیں، تو وہ لوگ روتے ہوئے واپس چلے گئے، جب اللہ نے ان کا یہ اخلاص دیکھا تو ان کا عذر قرآن میں بیان کردیا۔ اسی لیے صحیحین میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، مدینہ میں ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو ہر جگہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا حالانکہ وہ مدینہ میں ہیں؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں کسی مجبوری نے انہیں آنے سے روک دیا ہے۔