فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ
پس اگر اللہ آپ کو (مدینہ میں) ان میں سے ایک جماعت تک پہنچا دے، اور وہ جہاد میں نکلنے کی آپ سے اجازت (63) مانگیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو گے، اور میرے ساتھ مل کر کسی دشمن سے ہرگز جنگ نہ کروگے تم لوگوں نے پہلی بار (جنگ تبوک کے موقع سے) بیٹھے رہنے کو پسند کیا تھا، تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو
63۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ مدینہ واپس پہنچا دے اور غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے والے منافقین میں سے ایک جماعت آپ کے پاس آئے اور کہے کہ ہمیں آئندہ غزوات میں شریک ہونے کی اجازت دے دیجئے، تاکہ ہماری جو رسوائی ہوئی ہے اسے دور کرسکیں تو آپ انہٰیں اجازت نہ دیجئے اور کہئے کہ تمہیں آئندہ ہمارے ساتھ نکلنے اور دشمن سے جنگ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ جب تم غزوہ تبوک کے موقع سے بیٹھے رہ گئے تو اللہ کی نظر سے گر گئے اس لیے اب تم ہمیشہ کے لیے عورتوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد بارہ تھی۔ اور آیت میں طائفۃ کا لفظ دلیل ہے کہ جو لوگ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ سبھی منافق نہیں تھے۔ مثال کے طور پر کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارۃ بن الربیع العامر مخلص مسلمان تھے،