سورة التوبہ - آیت 60

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک اموالِ صدقہ (46) فقیروں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور انہیں اکٹھا کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے ہیں جن کا دل جیتنا مقصود ہو، اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لیے اور قرضداروں کا قرض چکانے کے لیے ہے، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے ہیں، یہ حکم اللہ کی جانب سے ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمتوں والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

46۔ رسول اللہ (ﷺ) کی تقسیم صدقات پر منافقین کی نکتہ چینی بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ بتایا ہے صدقات کی صحیح تقسیم اور ان کے حقداروں کی تعیین خود اللہ تعالیٰ نے کردی ہے، جو عین انصاف ہے۔ نبی کریم (ﷺ) تو صرف اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق حقداروں تک پہنچا دیتے ہیں، جیسا کہ ابوداود نے زیاد بن الحارث (رض) سے روایت کی ہے کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی، تو ایک آدمی آیا اور رسول اللہ (ﷺ) سے کہنے لگا کہ مجھے صدقہ کے مال میں سے دیجئے، آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ صدقات کی تقسیم کے سلسلے میں کسی نبی یا غیر نبی کے فیصلے پر راضی نہیں ہوا، بلکہ اس نے خود ہی اس بارے میں فیصلہ کیا، اور اس کے آٹھ حصے کردئیے، اگر تم ان لوگوں میں سے ہوگے تو تمہارا حق دوں گا۔ معلوم ہوا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی تردید کی گئی ہے جنہوں نے تقسیم صدقہ کے بارے میں نبی کریم (ﷺ) پر نکتہ چینی کی تھی۔ آیت میں جن آٹھ قسم کے لوگوں کے لیے زکاۃ کے جواز کی تحدید کردی گئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ فقیر، یعنی وہ مسلمان جن کے پاس اپنے اخراجات کے لیے کچھ مال ہو۔ 2۔ مسکین، جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، بعض نے فقیر و مسکین میں امتیاز اس طرح پیدا کیا ہے کہ دونوں ہی کے پاس کچھ نہیں ہوتا، لیکن فقیر دوسروں سے نہیں مانگتا ہے، اور مسکین دوسروں سے مانگتا ہے۔ 3۔ زکاۃ کے ملازمین، ان کی تنخواہیں اسی مال سے دی جائیں گی۔ 4۔ ایسے نو مسلموں کا دل جیتنے کے لیے جن سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ کی امید ہو، اسی طرح وہ غیر مسلم جس کے بارے میں توقع ہو کہ وہ اسلام لانے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے لیے نافع ہوگا۔ 5۔ غلاموں اور لونڈیوں کے لیے تاکہ وہ اپنے آپ کو آزاد کراسکیں۔ 6۔ قرضدار جو اپنے اور اپنے بال بچوں پر جائز اخراجات کی وجہ سے مقروض ہوگیا ہو، اور اس کے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے نقدی یا کوئی جائداد وغیرہ نہ ہو۔ 7۔ اللہ کی راہ میں، اس سے جہاد فی سبیل اللہ بدرجہ اولی مراد ہے۔ فخرالدین رازی کا خیال ہے کہ اس سے صرف مجاہدین ہی مراد نہیں ہیں۔ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ خیر کے تمام کاموں میں زکاۃ کا مال خرچ کرنا جائز ہے، جیسے مردوں کی تجہیز و تکفین، مسلمانوں کے لیے قلعوں اور مساجد کی تعمیر، اس لیے کہ فی سبیل اللہ میں سارے کام داخل ہیں۔ ابن الاثیر کہتے ہیں کہ فی سبیل اللہ کا کلمہ عام ہے، جس کا اطلاق ہر اس نیک کام پر ہوتا ہے جس سے مقصود اللہ کی قربت حاصل کرنی ہو، ابو داود کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ (ﷺ) نے حج کو سبیل اللہ میں شمار کیا ہے۔ سعودی عرب کے دار الافتاء کا فتوی ہے کہ اسلامی مدارس، جمعیات اور دعوتی مراکز سبیل اللہ میں داخل ہیں۔ اس لیے ایسی بلڈنگوں کی تعمیر، ان کے ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات زکاۃ سے دینا جائز ہے، اسی طرح دعوتی کتابوں اور پمفلٹوں کی طباعت بھی زکاۃ کے مال سے جائز ہے، کیونکہ یہ سارے کام اللہ کی راہ میں اور اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ 8۔ مسافر، جس کا زاد سفر ختم ہوجائے یا چوری ہوجائے تو اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا، چاہے وہ اپنے شہر میں مالدار ہی کیوں نہ ہو۔ امام شافعی وغیرہ کا خیال ہے کہ زکاۃ کی رقم آٹھوں قسم کے لوگوں پر تقسیم کرنا ضروری ہے، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آٹھوں اقسام کا ذکر تحدید کے ساتھ کیا ہے تو سب پر تقسیم لازم ہے اور ابو داود کی زیاد بن حارث (رض) سے مروی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں آپ (ﷺ) نے فرمایا ہے اللہ نے زکاۃ کی تقسیم کی تحدید آٹھ قسم کے لوگوں میں کردی ہے، اور امام مالک اور امام ابوحنیفہ اور جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ اگر آٹھوں میں سے بعض قسم کے لوگوں کو زکاۃ کی پوری رقم دے دی جائے تو زکاۃ ادا ہوجائے گی، اس لیے کہ آیت سے مقصود یہ نہیں ہے کہ زکاۃ تمام قسموں پر ضرور تقسیم کی جائے۔ بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ زکاۃ انہی لوگوں کے جائز ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اپنے بندوں پر فرض کردیا ہے اور اس سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ہے۔