لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
انہوں نے پہلے بھی (غزوہ احد اور غزوہ خندق میں) فتنہ (37) پیدا کرنا چاہتا تھا، اور معاملمات کو آپ کے لیے الٹتے پلٹتے رہے تھے، یہاں تک کہ حق سامنے آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوا، اگرچہ وہ نہیں چاہتے تھے
(37) منافقوں کانبی (ﷺ) کے ساتھ ابتدائے اسلام سے یہی رویہ رہا ہمیشہ ہی شر پھیلانے اور صحابہ کرام کو آپ سے برگشتہ کرنے کی کو شش کی جیسا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جنگ احد کے موقع سے کیا کہ راستہ سے ہی اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس ہوگیا جن کی تعداد ایک تہائی لشکر اسلام کے قریب تھی اور منافقین پوری مدنی زندگی میں اسلام اور رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف سازش ہی کرتے رہے جس کی تفصیل سے سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اس لیے اگر غزوہ تبوک کے موقع سے بھی انہوں نے سازش کی اور رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ نہیں گئے اور دوسروں کی بھی ہمت پست کی تو کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن ان کی ہزار سازشوں کے باوجود اللہ کا دین غالب ہو کر رہا۔ حافظ ابن کثیر لکتے ہیں کہ جب رسول (ﷺ) مدینہ آگئے تو سارے عرب نے ان کی خلاف محاذ کھول دیا اور مدینہ میں رہنے والے یہود اور منافقین نے بھی پوری قوت کے ساتھ مخالفت شروع کر دی جب اللہ نے آپ کو میدان بدر میں فتح ونصرت عطافر مائی اور اسلام غالب ہوا تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اب یہ دین آگے چل نکلا چنانچہ وہ لوگ بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے لیکن اللہ نے جب بھی اسلام اور مسلمانوں کو عزت دی ان منافقین پر غیظ وغضب کے مارے موت طاری ہوتی رہی۔