لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
اللہ تعالیٰ نے بہت سی جگہوں میں تمہاری مدد کی، غزوہ حنین (20) کے دن مدد کی جب تمہاری کثرت نے تمہارے اندر عجب پیدا کردیا تھا، لیکن وہ تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑے
(20) مندرجہ ذیل تین آیتوں میں غزوہ حنین کا ذکر ہے جس کا اجمالی ذکر اس سورت کی ابتدا میں چکا ہے یہ جنگ شوال 8 ھ میں وادی حنین میں ( جو کہ اور طائف کے درمیان واقع ہے ) قبیلہ ہوازن اور اس علاقہ کے کچھ دوسرے مشر کین کے ساتھ لڑی گئی تھی، مشر کین عرب کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) کی پہلی جنگ بدر تھی، اور آخری جنگ جنگ حنین تھی ان دونوں ہی میں رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر مشرکین کی طرف پھینکا تھا، غزوہ بدر نے مشر کین عرب کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب بٹھا دیا اور ان کے مزاج کی تیزی میں کمی پیدا کردی اور غزوہ حنین نے ان کی کمر توڑ دی مشرکین کے ترکش کا آخری تیر بھی چل چکا، اور اللہ نے مشرکین کو ذلیل کیا اور اس کے بعد تمام قبائل عرب جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے کیوں کہ ان کے لیے اب اس کے علا وہ کوئی چارہ نہیں رہا اسلام کا علم بلند ہوچکا تھا اور کفر وشرک ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوچکا تھا، غزوہ بدر اور غزوہ حنین اور ہر سریہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و کامرانی دی اور اسلام معزز ہوتا چلا گیا یہ تما کامیابیاں اور یہ عزت وغلبہ جو مسلمانوں کو حاصل ہوا وہ محض اللہ تعالیٰ کی تائید ومدد سے حاصل ہوا ان کامیابیوں میں انسانی قوت اور مادی وسائل حالات کے مطابق کبھی کم کبھی زیادہ استعمال ہوئے لیکن فتح ونصرت کا تعلق ان وسائل سے نہیں بلکہ محض توفیق باری تعالیٰ سے تھا۔ بسا اوقات مسلمان انسان ہونے کے ناطے شیطان کے دھوکہ میں آجاتا ہے صحابہ کرام انسان تھے ان میں سے بعض حضرات کے ذہنوں میں کبھی کبھار یہ بات آجاتی رہی ہوگی کہ یہ فتح وکامرانی ہم نے اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے، جو مسلمانوں کے دین و ایمان کے لیے بہرحال زہر ہلاہل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اور تمام مسلمانوں کی ذہنی تربیت کے لیے یہ بات غزوہ حنین کے ذکر کے موقع سے ان کے ذہن نشیین کرنا چاہا کہ وہ اللہ کی ذات تھی جس نے غزوہ حنین ( جب مسلمانوں کو اپنی کثرت تعداد پر غرور تھا) اور دیگر تمام مواقع پر تمہاری مدد کی تمام کا میابیاں اسی ذات واحد کی نصرت وتائید سے حاصل ہوتی رہی ہیں تمہاری تعداد تمہاری جنگی تیاریوں کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ نبی کریم (ﷺ) نے جب رمضان 8 ھ میں مکہ فتح کرلیا تو انہیں معلوم ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ آپ سے جنگ کرنے کے لیے جمع ہو رہے تھے تو آپ (ﷺ) شوال 8 ھ میں بارہ ہزار کی فوج لے کر ( جس میں دس ہزار مدینہ سے آئے ہوئے مجاہدین تھے اور دو ہزار فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں میں سے تھے) ان سے نمٹنے کے لیے روانہ ہوگئے بعض مسلمانوں کو اس موقع پر اپنی کثرت تعدادپر غرور ہوگیا۔ جب دونوں فوجیں جمع ہوئیں تو ہوازن نے اپنی کمین گاہوں سے نکل کار یک بارگی ایسا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے صرف سو (100) کے قریب مجاہدین رسول اللہ (ﷺ) کے ارد گرد رہ گئے اور مشر کین سے جنگ کرتے رہے اور نبی کریم (ﷺ) اپنا خچر (دلدل) مشرکین کی طرف بڑھاتے اور کہتے کہ میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور عباس بن عبدالمطلب ( جن کی آواز بہت اونچی تھی) کو حکم دیا کہ وہ انصار کو اور باقی مسلمانوں کو آوازدیں جب انہوں نے آواز سنی تو یکبارگی پلٹے اور مشر کین پر ایسے جھپٹے کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان کی عورتوں بچوں اور مال ودولت سب کچھ پر قبضہ کرلیا تقریبا چھ ہزار آدمی پابند سلاسل ہوئے جنہیں رسول اللہ (ﷺ) نے بعد میں آزاد کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں اکثروبیشتر لوگ مسلمان ہوگئے، غزوہ حنین کے انہی واقعات واحوال کو ان آیتوں میں بیان کیا گیا ہے، وباللہ التوفیق۔ میں غزوہ بدر، قریظہ، بنونضیر، حدیبہ، خیبر، فتح مکہ اور دیگر غزوات اور فوجی دستوں کی طرف اشارہ ہے جن کی تعداد صحیحین کی زید بن ارقم سے مروی ایک حدیث میں انیس بتائی گئی ہے۔