سورة البقرة - آیت 117

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین (١٧١) کا (بغیر نمونہ دیکھے) پیدا کرنے والا ہے، اور وہ جب کسی چیز (کو وجود میں لانے) کا فیصلہ کرلیتا ہے، تو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، وہ چیز وجود میں آجاتی ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

171: ؛ یعنی اللہ نے آسمان و زمین کو بغیر کسی سابق مثال کے پیدا کیا ہے، جس طرح اس نے مسیح (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے کلمہ کن سے پیدا کیا لفظ بدعت اسی سے ماخوذ ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام میں نئی پیدا کی جائے اور جس کی تائید قرآن و سنت سے نہ ملے، اسے بدعت کہا جاتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، کل محدثۃ بدعۃ کہ اسلام میں ہر نئی بات بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت اور عظیم بادشاہی کی خبر دی ہے، کہ جب وہ کسی چیز کے ہوجانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو کن یعنی ” ہوجا“ کہتا ہے، اور وہ ہر چیز اللہ کے ارادے کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ کوئی شے (وجود میں آنے سے) نافرمانی نہیں کرسکتی۔