كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
مشرکوں کا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیسے کوئی عہد و پیمان (8) ہوسکتا ہے، ہاں، مگر جن کے ساتھ مسجد حرام کے قریب تمہارا معاہدہ ہوا، تھا، اگر وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ اس پر قائم رہو، بے شک اللہ تقوی والوں کو پسند کرتا ہے
(8) اس آیت میں مشر کین سے اعلان براءت اور انہیں صرف چارماہ کی مہلت دیئے جانے کی حکمت بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے امان کس بنیاد پر دیا جائے ؟ نہ تو وہ ایمان لائے اور نہ ہی رسول اللہ (ﷺ) کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا رکھی حق کے خلاف جنگ کی باطل کی تائید کی اور زمین میں فساد بر پا کیا اس لیے اللہ اور رسول اللہ (ﷺ) کی طرف سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ہاں بنی بکربن کنانہ کے جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) نے صلح حدبیہ کے موقع سے حرم کے پاس معاہدہ کرلیا تھا ان کے معاہدے کا خیال کیا جائے اگر وہ بھی اس کی پاسداری کریں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غدروخیانت کو پسند نہیں کرتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) اور صحابہ کرام ذی القعدہ 6 ھ میں حدیبیہ کے مقام پر اہل مکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدہ صلح پر قائم رہے یہاں تک کہ خود قریش نے نقض عہد کر کے اور بنو بکر کے ساتھ مل کر قبیلہ خزاعہ والو کو حرم میں قتل کردیا جو رسول اللہ (ﷺ) کے حلیف تھے تو رسول اللہ (ﷺ) رمضان 8 ھ میں مکہ کے مشرکین پر حملہ کردیا اور بلد حرام کو مشرکوں سے پاک کردیا اس وقعہ کے بعد تقریبا دوہزار مشرکین مکہ اسلام لے آئے کچھ لوگ اپنے کفر پر باقی رہے اور مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں چار ماہ کی مہلت دی انہی لوگوں میں صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے بعد میں ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔