وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اور کافروں کے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت اور فوجی گھوڑوں کو تیار کرو (50) جن کے ذریعہ تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کروگے اور دوسرے دشمنوں کو بھی جو ان کے علوہ ہیں، جنہیں تم نہیں جانتے ہو انہیں اللہ جانتا ہے، اور تم اللہ کی راہ میں جو بھی خرچ کروگے وہ تمہیں پورا کا پورا دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں ہوگا
(50) کفار قریش معرکہ بدر میں شکست فاش کے بعد جب مکہ پہنچے تو ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف آگ لگی ہوئی تھی وہاں پہنچتے ہی انہوں رسول اللہ (ﷺ) سے دوبارہ جنگ کرنے کی تیاری شروع کردی تاکہ مسلمانوں سے اپنے مقتولین کا انتقام لے سکیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے موقع کی مناسبت سے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ دشمنوں سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں کو ہر حال اور ہر زمانہ میں بھر پور جنگی تیاری کرنی چاہیئے اس میں ایک قسم کا لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں نے کوئی جنگی تیاری نہیں کی تھی وہ تو اللہ کا خاص انعام تھا کہ رسول اللہ ( ﷺ) کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور دین اسلام کو دنیا میں باقی رکھنے کے لیے مسلمانوں کو فتح دی لیکن ایسا ہر وقت ہر حال میں نہیں ہوسکتا فتح ونصرت حاصل کرنے کے لیے اللہ کی تائیدکے بعد اہم چیز زمانے کے تقاضے کے مطابق فوجی طاقت اسلحہ ٹینکوں اور جدید اسباب جنگ کی فراہمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو صریح طور پر حکم دیا ہے کہ وہ دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری جنگی تیاری کریں اور اس بارے میں کبھی بھی غافل نہ ہوں اور اس کی عظیم حکمت یہ بتائی ہے جب دشمنان اسلام کو معلوم ہوگا کہ مسلمان پوری طرح تیار ہیں اور اگر جنگ کی نوبت آگئی تو وہ ہمارا صفایا کردیں گے تو ان پر رعب طاری رہے گا اور مسلمانوں پر دست درازی سے باز رہیں گے اور چونکہ جنگی تیاری اور جدید ترین اسلحہ کی صنعت بغیرزر کثیر کے وجود میں نہیں آسکتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس راہ کے اخراجات کو انفاق فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا اور بتایا کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے پورا بدلہ دے گا۔ امام مسلم، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے منبر پر یہ آیت پڑہی اور فرمایا : اصل طاقت تیراندازی ہے اصل طاقت تیر اندازی ہے۔ امام احمد اور اصحاب سنن نے عقبہ بن عامر (رض) سے ہی ایک اور حدیث روایت کی ہے جس میں رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا تیر چلاؤ اور سواری کرو اور تیر چلانا گھوڑے پر سوار ہونے سے بہتر ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اس حدیث میں پھینکنے کا لفظ استعمال کیا ہے جو اس زمانے کے ہر اس ہتھیار پر صادق آئے گا جسے دشمن کی طرف سیکڑوں میل کی مسافت سے پھینکا جارہا ہے اور دشمن کی صفوں اور ان کے شہروں میں تباہی لائی جا رہی ہے اس لیے مسلما نوں کو اس آیت کریمہ اور مذکورہ بالا احادیث کے پیش نظر جنگی تیاری پر پورا دھیان دینا چاہئے۔ آج مسلمان ذلت ومغلوبیت کا شکار ہیں تو اس کاسبب جہاں ایمان وعمل کی کمی ہے وہاں یہ سبب بھی ہے کہ وہ اسلحہ سازی اور جنگی تیاریوں میں دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں بہت ہی پیچھے جا چکے ہیں ہر مسلمان ملک ہتھیاروں کے لیے کاسئہ گدائی لے کر دوسری قوموں کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور وہ قومیں انہیں صرف دفاعی ہتھیار دینے پر راضی ہوتی ہیں اس لیے کہ الکفر ملۃ واحدہ کے مطابق وہ کبھی بھی نہیں چاہتیں کہ مسلمان اس پوزیشن میں آجائیں کہ وہ اللہ اور رسول کے ان دشمنوں پر حملہ کرسکیں جنہوں نے بہت سے ممالک میں مسلانوں پرعرصئہ حیات تنگ کر رکھا ہے آیت میں سے مراد منافقین ہیں جو مدینہ میں پائے جاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ آیت (101) میں فرمایا ہے کہ اہل مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو نفاق کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں انہیں آپ نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔