إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ
بے شک اہل کفر اپنی دولت (30) اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روک دیں، پس وہ اسے خرچ کریں گے، پھر وہ ان کی حسرت کا سبب بن جائے گی، پھر وہ مغلوب بن جائیں گے، اور اہل کفر جہنم کے پاس جمع کیے جائیں گے
(30) محمد بن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے کہ جب قریش کے کچھ لوگ میدان بدر سے بھاک کر مکہ واپس پہنچے اور ابو سفیان کا قافلہ بھی پہنچا تو جن کے رشتہ دار لوگ مارے گئے تھے انہوں نے ابو سفیان اور دوسرے ان لوگوں سے بات کی جن کا مال تجارت شام سے آیا تھا، کہ محمد (ﷺ) سے دوبارہ جنگ کی تیاری کے لیے مال کے ذریعہ مدد کریں تو ان تاجروں نے اس غرض کے لیے مال اکٹھا کیا انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں ان کے انجام کی خبر دی گئی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ذلیل ورسوا ہوئے مارے گئے اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ضحاک کی رائے ہے کہ جب بارہ مشرکین قریش نے میدان بدر میں لشکر کفر کو باری باری اونٹ کا گوشت اور کھانا کھلا یا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، بہر حال آیت کا حکم عام ہے، اور اسلام وکفر کی جنگ میں جو شخص بھی اپنے مال کے ذریعہ کافروں کی مدد کرے گا وہ آیت میں مذکور دنیاوی اور اخروی عذاب کا مستحق ہوگا۔